تین طلاق کا
حکم:
بہ یک وقت ”تین طلاق“ دینا
سخت گناہ ہے، قرآنِ پاک کے بتائے ہوئے طریقے کے خلاف؛ بلکہ قرآنِ پاک کے
ساتھ ایک طرح کا کھیل اور مذاق ہے؛ لیکن جس طرح حالتِ حیض
میں دی ہوئی طلاق سخت گناہ اور معصیت ہونے کے باوجود پڑ
جاتی ہے، اسی طرح ایک دفعہ میں دی ہوئی تین
طلاق بھی جمہورِ امت کے نزدیک واقع ہوجاتی ہے، اس پر ائمہٴ
اربعہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل
رحمہم اللہ متفق ہیں۔
بعض لوگ ایسی صورت میں
غیرمقلدین علماء کے پاس چلے جاتے ہیں؛ اس لیے کہ وہ ایک
مجلس میں دی گئی تین طلاق کو ایک مانتے ہیں؛
حالاں کہ ائمہٴ اربعہ کے اتفاق اور اجماع کی صورت میں ان کے
اختلاف کی کوئی اہمیت نہیں۔ کوئی چیز
حرام ہوتو کسی کے کہنے سے حلال نہیں ہوسکتی، حدیث شریف
میں ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے
متعلق یہ اطلاع ملی کہ اس نے اپنی بیوی کو ایک
ساتھ تین طلاق دے دی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت
غصہ کی حالت میں کھڑے ہوگئے اورارشاد فرمایا کہ: ابھی جب
کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں، کیا کتاب اللہ سے کھیلا
جائے گا؟ (یعنی ایک ساتھ تین طلاق دینا قرآنِ پاک
کے بتائے ہوئے طریقہٴ طلاق سے مذاق ہے) اس وقت ایک صحابی کھڑے ہوگئے، اور عرض کیا کہ: یا
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم! کیا میں
اس آدمی کو قتل ہی نہ کردوں، جس نے یہ حرکت کی ہے؟ (سنن
نسائی)
اس حدیث شریف میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ایسا نہیں فرمایا کہ: تین طلاق ایک ہی کے
برابر ہے؛ بلکہ اگر ایک کے حکم میں ہوتی تو آپ علیہ
السلام کو غصہ ہی نہ آتا، غصہ اس بات پر آیا کہ قرآنِ پاک میں ”الطلاق مرتان الخ“ میں الگ
الگ طلاق استعمال کرنے کی تلقین ہے۔
تیسری طلاق دینے سے
پہلے اچھی طرح سوچ لے کہ رکھنا ہے یا چھوڑنا؟ جیسا ارادہ ہو ویسا
عمل کرے؛ لیکن اس آدمی نے ایسا نہیں کیا، اسی
وجہ سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ
وسلم کو غصہ آیا۔
غرض یہ کہ اگر کوئی آدمی
تین طلاق دے دے تو تینوں طلاق واقع ہوجاتی ہیں، اور
دوبارہ اس شوہر کے پاس رجوع ہونے کی صورت صرف یہ ہوتی ہے کہ
عورت عدتِ طلاق گذرنے کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کرلے اور وہ دوسرا مرد اس کے ساتھ
جنسی تعلق قائم کرنے کے بعد مرجائے یا اُسے طلاق دے دے تو پھر عدتِ
وفات یا عدتِ طلاق گذرجانے کے بعد پہلے شوہر سے باہمی رضامندی
سے دوبارہ نکاح کرے، تبھی تین طلاق دینے والے شوہر سے رشتہٴ
زوجیت قائم ہوسکتا ہے۔ (ہدایہ ۲/۳۹۹، مشکوٰة، ص:۲۸۴)
طلاق واقع ہونے کی
شرطیں:
وقوعِ طلاق کے لیے شوہر کا عاقل
بالغ ہونا، بیداری اور ہوش وحواس کی حالت میں ہونا شرط
ہے، یہی وجہ ہے کہ:
(۱) ”نابالغ“ کی طلاق واقع نہیں ہوتی، یعنی
اسلامی کلینڈر سے پندرہ سال کا لڑکا شرعی لحاظ سے بالغ کہلاتا
ہے، جب کہ پندرہ سال سے پہلے بلوغ کی علامت ظاہر نہ ہوئی ہو، اگر بلوغ
کی علامت (احتلام وانزال) پندرہ سال سے کم میں ظاہر ہوجائے تو وہ شریعت
میں بالغ کہلائے گا، اس کی طلاق واقع ہوجائے گی۔ (الدرالمختار
علی ہامش رد المحتار، فصل فی بلوغ الغلام بالاحتلام ۵/۱۳۲، ۲/۵۷۶)
(۲) ”پاگل یا کم عقل (معتوہ) کی طلاق“ بھی واقع نہیں
ہوتی؛ اس لیے کہ اِن کے تصرفات، عقل وشعور سے خالی ہوتے ہیں،
ان کے ارادے کا شریعت نے اعتبار نہیں کیا ہے۔
اس صورت میں بیوی
دارالقضاء یا شرعی پنچایت سے رجوع ہوکر اپنی پریشانی
رکھ سکتی ہے؛ تاکہ وہاں شرعی لحاظ سے فسخِ نکاح کی کارروائی
عمل میں آسکے۔
(۳) ”بے ہوش“ آدمی کی طلاق بھی واقع نہیں
ہوتی ہے؛ اس لیے کہ اس وقت سوچنے سمجھنے کی قوت معطل رہتی
ہے۔
(۴) ”نیند کی حالت“ میں دی ہوئی طلاق
بھی واقع نہیں ہوتی۔
(۵) خوف ودہشت کی وہ کیفیت جس میں انسان
عقل کھوبیٹھے اس حالت کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی۔
(۶) اسی طرح غصہ کی وہ حالت جس میں انسان پاگل
ہونے کی حد کو پہنچ جاتا ہے، عقل مغلوب ہوجاتی ہے، وہ یہ بھی
نہیں سمجھتا کہ کیاکہہ رہا ہے، کیا کررہا ہے؟ اس طرح کی کیفیت
ہزاروں میں ایک آدھ کی ہوسکتی ہے۔ اس حالت کی
طلاق بھی واقع نہیں ہوتی ہے۔
عام طور سے لوگ آتے ہیں اور کہتے
ہیں کہ میں بہت زیادہ غصہ کی حالت میں ہوش وحواس
کھوگیا تھا، اس حالت میں میں نے اپنی بیوی کو
طلاق دی ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ غصہ کی حالت میں
طلاق واقع نہیں ہوتی ہے؛ حالاں کہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا
آدمی طلاق خوشی کی حالت میں دیتا ہے؟ طلاق تو ہمیشہ
غصہ کی حالت ہی میں دیتا ہے؛ اس لیے محض غصہ ہونا،
طلاق کے عدمِ وقوع کے لیے کافی نہیں ہے؛ بلکہ عقل وحواس کھوکر
جنون کی حد میں داخل ہونے کی حالت میں بے اختیار
طلاق کا زبان سے نکل جانا مراد ہے۔
ایک بار ایک صاحب سے میں
نے پوچھا کہ: اس حالت میں آپ نے کتنی طلاق دی؟ کچھ یاد
ہے؟ انھوں نے کہا کہ: ہاں، تین طلاق دی تھی! ظاہر سی بات
ہے کہ اگر ”تین طلاق“ یاد ہے تو وہ حواس باختہ ہونے کی حالت کیسے
کہی جاسکتی ہے؟ دارالافتاء کے ماحول میں چودہ سال میں صرف
ایک واقعہ ایسا آیا، جس میں واقعتا صاحبِ واقعہ غصہ کی
اس حد میں پہنچا ہوا معلوم ہوا۔
اس موقع پر مفتیوں کو بہت ہی
گہرائی سے جائزہ لینا چاہیے، عموماً لوگ حیلہ کرنے کے لیے،
اور طلاق کے واقع نہ ہونے کا فتویٰ حاصل کرنے کے لیے ایسا
کرتے ہیں؛ حالاں کہ لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر کوئی
چیز حرام ہوگئی ہے تو مفتیوں کے کہنے سے حلال نہیں ہوسکتی؛
اس لیے سچ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
(۷) نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق واقع
ہوجاتی ہے۔ (ہدایہ ۲/۳۵۹) البتہ درج ذیل صورتیں مستثنیٰ ہیں:
(الف) بطور دوا وعلاج نشہ آور شے
استعمال کی گئی، تو طلاق واقع نہ ہوگی۔
(ب) اگر کوئی بھوک کی وجہ
سے مرنے کے قریب تھا، اس حالت میں جان بچانے کے لیے شراب اور
نشہ آور چیز کے علاوہ کوئی چیز نہیں تھی، اس نے
مجبور ہوکر نشہ آور چیز استعمال کی تو اس حالت میں دی گئی
طلاق واقع نہیں ہوگی۔
(ج) اگر کسی کو جان سے مارنے کی
دھمکی کے ساتھ نشہ آور چیز استعمال کرائی گئی، اس وقت
غالب گمان ہوکہ اگر وہ استعمال نہیں کرے گا تو سخت جسمانی مضرت یا
کوئی ناقابل برداشت نقصان پہنچ سکتا ہے تو اس حالت میں دی گئی
طلاق واقع نہ ہوگی۔
(د) کوئی چیز استعمال کرلی
جس سے نشہ ہوگیا؛ لیکن استعمال سے پہلے اس کے نشہ آور ہونے کا علم نہیں
تھا، اتفاق سے وہ نشہ آور نکلی تو اس حالت میں دی گئی
طلاق واقع نہ ہوگی، جب کہ نشہ بہت زیادہ ہوگیا ہو، زمین
وآسمان کا فرق بھی اس حالت میں نہ ہو۔ (مستفاد از: مجموعہ قوانین
اسلامی ص:۱۳۴،
حسامی ص:۱۵۷،
رد المحتار ۲/۵۸۷،
۳/۲۴۰، ۳/۳۴۰
مطبوعہ کراچی)
(۸) جبر واکراہ کی حالت میں اگر کسی نے مجبور
ہوکر زبان سے طلاق دی تو طلاق واقع ہوگی ورنہ نہیں، اگر کسی
نے مجبور کرکے طلاق نامہ لکھوایا یا طلاق نامہ تیار کرکے دستخط
پر مجبور کیا، تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ (ایضاً
بحوالہ ردالمحتار ۲/۵۷۹)
(۹) ہنسی مذاق میں طلاق دینے سے بھی طلاق
واقع ہوجاتی ہے۔ (مشکوٰة ص:۲۸۴)
(۱۰) اگر مریض بحالتِ ہوش وحواس طلاق دے تو واقع ہوجائے گی۔
(بدائع الصنائع ۳/۱۰۰)
(۱۱) گونگا اگر لکھ کر طلاق دے، یا اشارہ سے طلاق دے تو اس کی
طلاق بھی واقع ہوجائے گی۔ (ہدایہ ۲/۳۵۹)
تحریری
طلاق:
جس طرح زبان سے طلاق واقع ہوتی
ہے، اسی طرح تحریر لکھ کر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع
ہوجاتی ہے، اس کی درج ذیل صورتیں ہیں:
۱- باضابطہ طلاق نامہ، یا خط پتہ اور مخاطب کی صراحت
کے ساتھ تیار کیاگیا تو طلاق واقع ہوگئی؛ اس لیے کہ
اس صورت میں تحریر، تلفظ کے قائم مقام ہوتی ہے۔
۲- اگر یوں ہی کسی کاغذ یا دیوار پر
لکھے کہ ”طلاق ہے، یا طلاق دی“ اور نیت اس سے بیوی
کو طلاق دینا ہوتو بھی طلاق واقع ہوجائے گی۔
۳- پانی یا ہوا میں ”طلاق“ لکھنے سے طلاق واقع
نہیں ہوتی، چاہے نیت کرلے۔ (مجموعہ قوانین اسلامی
ص۱۳۰، بحوالہ الدرالمختار مع رد المحتار ۲/۵۸۹)
فون پر طلاق:
فون پر طلاق دینے سے طلاق واقع
ہوجاتی ہے۔
عورت اگر طلاق
منظور نہ کرے:
بعض لوگوں کو غلط فہمی رہتی
ہے کہ بیوی طلاق کو قبول کرے تب ہی طلاق واقع ہوگی، ایسی
بات نہیں، طلاق میں بیوی کی رضامندی اور عدمِ
رضامندی کو کوئی دخل نہیں ہے۔
بیوی
کی طلاق:
طلاق کا حق شوہر کو ہے بیوی
کو نہیں؛ اس لیے اگر بیوی اپنے اوپر طلاق لے تو اس سے کوئی
فرق نہیں پڑتا، اور اگر وہ شوہر کو طلاق دے تو بھی طلاق نہیں
ہوتی، یہ جہالت کی بات ہے۔
حمل کی حالت
میں طلاق:
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں
کہ حمل کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی؛ حالاں کہ یہ صحیح
نہیں ہے، صحیح بات یہ ہے کہ حمل کی حالت میں بھی
طلاق واقع ہوجاتی ہے؛ البتہ طلاق کی عدت، ولادت کے بعد پوری
ہوجاتی ہے۔
بلاگواہ طلاق:
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں
کہ بلا گواہ طلاق واقع نہیں ہوتی؛ حالاں کہ ایسا نہیں،
طلاق کے لیے گواہ کی ضرورت نہیں، بلاگواہ طلاق واقع ہوجاتی
ہے۔
بیوی
کی موجودگی میں طلاق:
بیوی موجود نہ ہو تب بھی
طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ یہ خیال نہیں رکھنا چاہیے
کہ بیوی اگر موجود ہے تو ہی طلاق واقع ہوگی ورنہ نہیں۔
ایک طلاق بھی
کافی:
جیساکہ اوپر بتایاگیا
کہ ایک طلاق بھی طلاق مانی جاتی ہے اور واقع ہوجاتی
ہے، یہ خیال رکھنا کہ تین سے کم طلاق واقع نہیں ہوتی
غلط ہے، لوگ نادانی میں تین ہی کو طلاق سمجھتے ہیں؛
اس لیے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ایک طلاق سے بھی
بیوی جدا ہوجاتی ہے، مزید یہ کہ اس صورت میں
سوچنے کا پورا موقع رہتا ہے۔
طویل جدائی
کے باوجود نکاح کی بقا:
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ
طویل جدائی کے بعد نکاح خود بخود ختم ہوجاتا ہے، بیوی
شوہر سے قانوناً الگ سمجھی جاتی ہے، یہ بات صحیح نہیں
ہے؛ اس لیے کہ اچھی طرح سمجھے رہنا چاہیے کہ شوہر چاہے پوری
عمر جدا رہے، اس کے طلاق دیے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی۔
ایسی عورتیں جو اس
طرح کی آزمائش میں ہوں، ان کو دارالقضاء یا شرعی پنچایت
سے رجوع ہوکر اپنا حل تلاشنا چاہیے۔
اب اس طرح کے واقعات بھی پیش
آنے لگے ہیں کہ عورتیں طویل جدائی کے بعد اپنے کو مطلقہ
سمجھ کر دوسری جگہ نکاح کرلیتی ہیں، اس طرح وہ صاحبِ
اولاد بھی ہوجاتی ہیں؛ حالاں کہ ایک نکاح کے باقی
رہتے ہوئے دوسرا نکاح منعقد ہوتاہی نہیں؛ اس لیے اولاد بھی
حرام ہی پیدا ہوتی ہے۔
وکیل کے ذریعہ
طلاق:
شوہر کو طلاق دینے کا حق ہے؛ لیکن
اگر وہ حق کسی دوسرے کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے، مثلاً: اگر وہ وکیل
کے ذریعہ اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو دے سکتا
ہے، وکیل کو جتنی طلاق کا وکیل بنائے گا اتنی ہی دے
سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔
اگر وکیل کو ایک طلاق کی
وکالت کی اجازت دی اور اس نے تین طلاق دے دی، تو اس سے
طلاق واقع نہیں ہوگی۔
اگر وکیل نے تین طلاق کا
طلاق نامہ بناکر پڑھ کر سنادیا، اوراس پر شوہر نے دستخط کیا تو تینوں
طلاق واقع ہوجائیں گی۔ اکثر وکلاء طلاق کا وکالت نامہ تیار
کرنا نہیں جانتے؛ اس لیے جب بھی ان سے طلاق نامہ تیار کرایا
جاتا ہے، وہ تین طلاق لکھ دیتے ہیں، ایسی صورت میں
موٴکل مصیبت میں پھنس جاتا ہے۔
بیوی
کو تفویضِ طلاق:
اگر کوئی شخص بیوی کو
طلاق لے لینے کا اختیار سپرد کردے، تو بھی طلاق واقع ہوجائے گی،
اگر ایک طلاق کا اختیار دیا اوراس نے ایک سے زیادہ
طلاق اپنے اوپر واقع کرلی تو زائد کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، ایک
ہی طلاق واقع ہوگی۔
تفویضِ طلاق کے بعد شوہر اس سے
رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ (مجموعہ قوانین اسلامی ص:۱۵۴، بحوالہ الدرالمختار علی ہامش رد المحتار ۲/۶۶۹)
انشاء اللہ کے
ساتھ طلاق:
اگر کوئی آدمی بیوی
کو طلاق دینے کے ساتھ ہی ”ان شاء اللہ“ کہہ دے تو طلاق واقع نہیں
ہوگی؛ اس لیے کہ انشاء اللہ کا مطلب ہے کہ ”اگر اللہ تعالیٰ
نے چاہا“ تو اللہ تعالیٰ کا چاہنا کیسے معلوم ہوگا؟ لہٰذا
طلاق واقع نہیں ہوگی۔ (ہدایہ ۲/۳۸۸)
تعلیقِ
طلاق:
اگر کوئی شوہر اپنی بیوی
سے کہے: ”اگر تم نے نماز نہیں پڑھی تو تم کو طلاق ہے“ یا ”اگر تم آج پانچ بجے شام تک میرے گھر نہ
آئی تو تم کو طلاق ہے“ تو پہلی صورت میں اگر بیوی
نماز نہیں پڑھے گی تو طلاق واقع ہوجائے گی، اور دوسری
صورت میں پانچ بجے شام کے بعد آئے گی یا نہیں آئے گی
تو اس پر طلاق واقع ہوجائے گی۔
حاصل یہ کہ طلاق کو کسی کام
یا وقت پر معلق کرنے سے طلاق معلق ہوجاتی ہے، اور اس چیز کے
واقع ہونے کی صورت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
طلاق کے بعد افسوس
یا کفارہ:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ طلاق دینے
کے بعد مجھے بہت افسوس ہوا، میں نے اللہ تعالیٰ سے معافی
مانگی، تو کیا افسوس کرنے اور توبہ کرنے کے بعد بھی طلاق واقع
ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح بندوق کی گولی چل جانے
کے بعد افسوس کرنے سے اور توبہ کرنے سے دوبارہ واپس نہیں آتی، اسی
طرح طلاق بھی دوبارہ واپس نہیں ہوتی۔
بعض لوگ طلاق کا کفارہ پوچھتے ہیں،
یا طلاق دینے کے بعد چند مسکینوں کو کھانا کھلاکر دوبارہ ساتھ
رہنے لگتے ہیں، یہ طریقہ بھی جائز نہیں ہے؛ اس لیے
کہ شریعت میں طلاق کا کوئی کفارہ مقرر نہیں ہے؛ اس لیے
اگر تین طلاق دے کر اس طرح کے ڈھونگ رچتا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں،
بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی۔ کفارہ سے حلال
نہیں ہوگی۔
ایک مشورہ:
جب بھی میاں بیوی
کے درمیان ایسا شدید اختلاف ہوجائے کہ ایک ساتھ رہنا
ناممکن سمجھ میں آرہا ہوتو دونوں طرف کے ایک ایک یا چند
افراد جمع ہوکر اختلاف کی وجوہات پر محض اللہ واسطے غور کریں، اگر
اتفاق کی کوئی صورت سمجھ میں آجائے تو ملادیں، یہ
مضمون قرآنِ پاک میں وضاحت سے بیان ہوا ہے۔ (نساء ۳۵)
اگر اس طرح بھی اتفاق نہ ہوسکے تو
شوہر کو کسی بڑے عالم یا قریبی دارالافتاء سے رجوع ہوکر
طلاق کی سب سے اچھی اور بہتر صورت معلوم کرنی چاہیے، اس
طرح طلاق دینے کے ناجائز اور مکروہ طریقے سے بچنا ممکن ہوگا، اپنی
مرضی سے طلاق دینے میں عام آدمی اکثر غلط طریقہ ہی
اپنا لیتا ہے۔ یا اکٹھے تین طلاق دے کر ایسی
شرمندگی اور گناہ اپنے سر لاد لیتا ہے، جس کی تلافی کی
کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی۔ اللہ تعالیٰ
طلاق جیسے منحوس ومکروہ عمل سے محفوظ رکھے۔ (آمین)
***
-------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 6 ،
جلد: 96 ، رجب 1433 ہجری مطابق جون 2012ء